بلھے شاہ (1680-1758 )
(١٧٥٨-١٦٨٠)
حضرت بلھے شاہ کا تعارف
حضرت بلھے شاہ (1680-1758) کا اصل نام حضرت عبد اللہ تھا۔ آپ کی پیدائش 1680 میں ایک سید خاندان میں بھاولپور کے قریب ایک گاؤں "اُچ" میں ہوئی۔ بلھے شاہ ایک معروف صوفی شاعر، فلسفی، اور عارف تھے جنہوں نے مغل سلطنت کے زوال کے دوران اپنی شہرت پائی۔ آپ کے دور میں پنجابی صوفی ازم کا عروج ہوا۔
آپ قصور میں قیام پذیر تھے اور 1757 میں قصور سے باہر دفن ہوئے (اور یہ علاقہ اب قصور شہر کا مرکز ہے)۔ آپ کے والد حضرت شاہ محمد درویش تھے جو عربی، فارسی اور قرآن میں مہارت رکھتے تھے۔ بلھے شاہ ایک عظیم انسان دوست، فلسفی، استاد اور صوفی شاعر تھے۔
حضرت بلھے شاہ کے استاد
حضرت بلھے شاہ حضرت عنایت شاہ لاہوری کے شاگرد تھے جو خود اپنے وقت کے عظیم صوفی تھے۔اپنے مرشد شاہ عنایت قادری کی رہنمائی میں بلھے شاہ نے ایک روحانی سفر شروع کیا جس نے ان کی زندگی کا رخ تبدیل کر دیا۔ انہوں نے وحدت الوجود کا نظریہ اختیار کیا اور ہر شے میں الہی وجود کو تسلیم کیا۔ آپ نے مولانا محی الدین سے بھی تعلیم حاصل کی۔ سید گھرانے سے تعلق کے باوجود حضرت عنایت کے زیر اثر، آپ نے زندگی کی آسائشیں چھوڑ کر ایک سادہ زندگی گزاری۔اس کو انہوں نے اپنے ایک شعر میں کچھ یوں بیان کیا ہے۔
چل بلھیا چل اوتھے چلیے جیتھے سارے انے
نہ کوئی ساڈی زات پچانے نہ کوئی سانوں منے
ترجمہ: بلھے شاہ کہتے ہیں کہ چلو وہاں چلیں جہاں سب اندھے ہیں تاکہ ہمیں ہماری ذات اور مرتبے کی بنیاد پر کوئی نہ پہچانے اور نہ ہی ہمیں عزت دے۔
ابتدائی زندگی
چھ ماہ کی عمر میں آپ کے والدین ملوکوال منتقل ہو گئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم پنڈوک میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے قصور چلے گئے۔حضرت بلھے شاہ نے مظلوموں کا ساتھ دیا اور ہر محاذ پر استحصالی طبقے کے خلاف آواز اٹھائی۔ آپ کے انقلاب پسند نظریات کے باعث کئی علماء نے آپ کے کفر کا فتویٰ دیا۔
شاعری اور تعلیمات
بلھے شاہ کی شاعری میں صوفیانہ رنگ جھلکتا ہے۔ آپ کی کافیاں آج بھی لوگوں کے دلوں کو چھوتی ہیں۔ آپ نے اپنی شاعری میں شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے مراحل کا ذکر کیا ہے۔ آپ کی شاعری کو آج بھی قوالی کے ذریعے گایا جاتا ہے۔بلھے شاہ کی شاعری ایک باغیانہ رنگ لیے ہوئے ہے اور محبت اور انسانیت کا پیغام دیتی ہے۔ ان کی شاعری میں روحانی آزادی کا ایک گہرا جذبہ نمایاں ہے جو رسمی عقائد کو مسترد کرتی ہے۔
حضرت بلھے شاہ فرماتے ہیں
پڑھ پڑھ علم ہزار کتاباں
اپنا آپ نہ پڑھیا !
جا جا وڑھدا مندر مسجد
من اپنے چے نئیں وڑھیا !
لڑدے رئے ہو نال شیطاناں
نئیں نفس اپنے نال لڑیا !
پہلاں اپنے آپ نوں پڑھ
فیر مندر مسجد وڑھ !
جدوں نفس جاوے تیرا مر
فیر نال شیطاناں لڑ !
وفات
حضرت بلھے شاہ 1757 میں قصور میں وفات پا گئے۔ قصور کے علماء نے آپ کے جنازے کی مخالفت کی اور آپ کی تدفین کے لیے کسی مولوی نے نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔تاریخ کی چند کتابوں کے مطابق خواجہ سرا نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔
درگاہ/دربار
حضرت بلھے شاہ کا مزار قصور شہر کے ریلوے روڈ پر واقع ہے۔ یہ مزار ایک مسجد اور مزار پر مشتمل ہے اور زائرین کے لیے مخصوص پارکنگ وغیرہ کا انتظام بھی موجود ہے۔
عرس
ہر سال اگست کے آخر میں حضرت بلھے شاہ کا عرس منایا جاتا ہے جس میں پاکستان اور دنیا بھر سے زائرین شرکت کرتے ہیں۔ عرس کے دوران زائرین کے لیے کھانے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔
عرس 2024
حضرت بلھے شاہ کا عرس 2024 میں 30 اگست سے یکم ستمبر تک منایا گیا۔ (30, 31 اگست اور 1 ستمبر 2024