Kasur City History in Urdu - قصور

قصور: تاریخی محلات کا شہر

ضلع قصور کا نام قصور شہر کے نام پر رکھا گیا اور یہی قدیم شہر اس ضلع کا صدر مقام بھی ہے، ضلع کا درجہ حاصل کرنے سے پہلے یہ لاہور کی ایک تحصیل تھا۔ یکم جولائی 1976کو ضلع لاہور سے تحصیل قصور کو علیحدہ کرکے ضلع کا درجہ دے دیا گیا، ضلع قصور کی تاریخ جاننے سے پہلے قصور شہر کی تاریخی حیثیت کا ادراک بہت ضروری ہے۔

قصور کا لفظ عربی زبان کے لفظ قصر کی جمع ہے جس کے معنی محل ہے، قصور شہر کو سب سے پہلے پٹھان امرا نے آباد کیا اور یہاں پر اپنے خاندانوں کی رہائش کے لئے علیحدہ علیحدہ قلعہ نما محل بنا لئے، انہی محلات کی وجہ سے قصور کا نام معرض وجود میں آیا ۔یہ محلات بعد میں کوٹ کے نام سے مشہور ہوئے۔ بہت سے کوٹ اب بھی انہی پرانے ناموں کے ساتھ موجود ہیں مثلاً کوٹ حلیم خاں ، کوٹ فتح دین خاں ، کوٹ عثمان خاں ، کوٹ غلام محمد خاں، کوٹ رکن دین خاں ، کوٹ مراد خاں ، کوٹ اعظم خاں ، کوٹ بدردین خاں ، کوٹ پیراں ، کوٹ بڈھا ، کوٹ میربازخاں ، کوٹ شیربازخاں ، دھوڑکوٹ ، روڈ کوٹ اور کوٹ علی گڑھ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

تاریخ

ایک اندازے کے مطابق قصور پہلی صدی عیسوی میں ایک بڑا قصبہ بن چکا تھا ، 533ء میں یہاں پر خویشگان پٹھانوں نے قبضہ کیا مگر 1020ء میں لاہور کے راجہ جے پال نے اس کا لاہور کے ساتھ الحاق کر لیا ، 1526ء میں ظہیرالدین بابر نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد افغانوں کی خدمات کے صلے میں قصور کا علاقہ ان کو عنایت کر دیا ، 1830ء میں یہاں پر راجہ رنجیت سنگھ کی صورت میں سکھوں کا قبضہ ہو گیا جو 1847ء تک رہا اور بعد ازاں پنجاب کے انگریزی حکومت میں شامل ہونے کی وجہ سے یہاں پر بھی انگریز قابض ہو گئے۔

Kamal Chisti Kasur in 1971

کمال چشتی دربار قصور
دربار حضرت کمال چشتی قصور 1971

تقسیم ہند سے پہلے قصور بذریعہ ریل امرتسر اور فیروزپور سے ملا ہوا تھا مگر اب یہ ریلوے لائن ختم کر دی گئی ہے اور اس ضلع کا سب سے قریبی تعلق بذریعہ سڑک اور ریل لاہور شہر سے قائم ہے، یہاں کی زیادہ تر تجارت لاہور ہی کی مرہون منت ہے، لاہور سے کراچی جانے والے ریلوے ٹریک پر رائیونڈ جنکشن سے قصور کے لئے ایک ریلوے لائن علیحدہ ہوتی ہے جو قصور شہر سے گزرتی ہوئی براستہ کھڈیاں خاص اور کنگن پور ضلع قصور سے نکل کر لودھراں جا پہنچتی ہے ۔ 1867ء میں انگریز حکومت نے قصور کو میونسپلٹی کا درجہ دیا، 1883ء میں رائیونڈ سے گنڈا سنگھ تک ریلوے لائن بچھائی گئی جبکہ 1910ء میں قصور سے لودھراں تک ریلوے ٹریک مکمل ہوا۔

پل نہر BRB قصور
پل نہر بی آر بی قصور 1947

قصور کا ماضی شاندار ہے، یہ مذہبی ، ثقافتی اور روحانی روایات کا امین ہے، یہاں پر زیادہ تر منظم حکومت افغانستان کے پٹھانوں کی رہی ہے جنہیں دہلی یا لاہور حکومت کی طرف سے مقرر کیا جاتا تھا لیکن وہ مقامی طور پر خود مختار حیثیت رکھتے تھے ، کہا جاتا ہے کہ ساتویں صدی عیسوی میں چین کا ایک مشہور سیاح ہیون تسانگ یہاں پہنچا اور یہاں کے حالات بھی تحریر کئے، اس کی تحریر سے ہمیں آثار قدیمہ کے بارے میں بہت سی معلومات ملتی ہیں، اس سے قبل قصور کا تاریخی حوالے سے تذکرہ مفقود ہے۔

 محل وقوع

ضلع قصور 30–40 درجے سے 31–20 درجے عرض بلد اور 73–38 درجے سے 74–41 درجے طول بلد پر واقع ہے اور صوبہ پنجاب کا سرحدی ضلع ہونے کی وجہ سے بہت اہمیت کا حامل ہے ، اس کے جنوب کی طرف دریائے ستلج جو بین الاقوامی ہندوستانی سرحد کے ساتھ ساتھ بل کھاتا ہوا ضلع قصور سے نکل کر پنجند کے مقام پر دریائے سندھ سے مل جاتا ہے، شمال مغرب میں دریائے راوی اس ضلع کی آخری حد کا کام دیتا ہے جس پر بلوکی ہیڈ ورکس یہاں کا مشہور اور تفریحی مقام ہے ، مشرق میں بھی ہندوستانی علاقہ موجود ہے جبکہ مغرب میں ضلع اوکاڑہ کی سرحد ہے، شمال کی طرف ضلع لاہور اور شمال مغرب کی طرف راوی دریا کے پار ضلع شیخوپورہ واقع ہیں ۔

قصور شہر
کمال چشتی چوک قصور

 پنجاب کا ایک قدیم دریا بیاس اب موجود نہیں ہے لیکن اس کی پرانی گذر گاہ مشرق سے مغرب کی طرف ضلع قصور کے وسط میں اب بھی دیکھی جا سکتی ہے جس نے قدرتی طور پر اس علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے ، اس گزر گاہ کا شمالی علاقہ جنوبی علاقے کی نسبت اونچا ہے جس کی اونچائی تقریباً ساڑھے پانچ میٹر ہے ، شمالی علاقہ اونچا ہونے کی وجہ سے ماجھا اور جنوبی علاقہ ہٹھاڑ کہلاتا ہے، ماجھا کے علاقے میں دریائے بیاس کے ساتھ ساتھ مٹی کے بہت بڑے بڑے ٹیلوں کا ایک وسیع سلسلہ بھی موجود ہے ، قصور کا قدیم شہر ماجھا کے جنوب مغربی سرے پر انہی ٹیلوں کے اوپر آباد نظر آتا ہے ۔

قصور شہر کے مشرقی حصے سے فیروز پور روڈ گزرتی ہے جو لاہور سے شروع ہو کر براستہ گنڈا سنگھ فیروز پور تک جاتی ہے، تقسیم ہند کے بعد یہ سڑک بین الاقوامی پاک بھارت سرحد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ، یہ شاہراہ قصور شہر سے لاہور تک تقریباً 53 کلومیٹر اور بھارتی شہر فیروز پور تک 25 کلومیٹر ہے۔

اس ضلع کی سطح قدرتی طور پر سمندر سے 198 میٹر بلند ہے جو شمال مشرق سے جنوب مغرب کی طرف عموماً ڈھلوانی ہے ، دریائے راوی اور ستلج کے قریبی علاقے نشیبی ہیں اور برسات کے موسم میں یہاں اکثر پانی جمع ہو کر سیلابی صورتحال پیدا کر دیتا ہے ان علاقوں کی زمین زیادہ تر ریتلی ہے، یہاں پر اوسط بارش 31 تا 33 ملی میٹر ریکارڈ پر موجود ہے، موسم گرما میں کافی شدت ہوتی ہے اور موسم سرما بھی کافی ٹھنڈا ہوتا ہے، بہت زیادہ گرم مہینے مئی، جون، جولائی ہیں اور دسمبر، جنوری، فروری سردی کے لحاظ سے اہمیت رکھتے ہیں۔ 

رقبہ:ـ

ء 1998کی مردم شماری میں فی مربع کلومیٹر 382.4 افراد آباد تھے جبکہ اوسط نکالنے سے موجودہ تعداد 800 افراد فی مربع کلومیٹر بنتی ہے، اس ضلع کی کل آبادی تقریباً30 لاکھ افراد اور کل رقبہ 3995 مربع کلومیٹر ہے، اس ضلع کو انتظامی طور پر چار تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے، تحصیل قصور جو قصور شہر کے نام پر ہی ہے دوسری تینوں تحصیلوں(چونیاں، پتوکی اور کوٹ رادھاکش) کی نسبت بڑی ہے اور اس کا ہیڈ کوارٹر قصور شہر ہے، ضلع کی افزائش آبادی کی سالانہ شرح 2.63 فیصد ہے، مسلمانوں کی تعداد 95.4 فیصد اور عیسائیوں کی تعداد 4.4 فیصد ہے، 88.2 فیصد لوگوں کی مادری زبان پنجابی ہے، اردو بولنے والے 6.2 فیصد ہیں اور 108 مردوں کے مقابلے میں 100 عورتوں کا اندازہ لگایا گیا ہے۔

درخت اور جنگلات

ضلع قصور میں ہاتھ سے لگایا پاکستان کا سب سے بڑا جنگل چھانگا مانگا تحصیل چونیاں میں موجود ہے جو تقریباً 12 ہزار ایکڑ کے وسیع رقبہ پر پھیلا ہوا ہے، اس میں بہت سے قیمتی درخت اگائے گئے ہیں، یہاں سے سالانہ ٹنوں کے حساب سے شہد اکٹھا ہوتا ہے، یہاں پر توت کا درخت بہت کثرت سے ہے جس کے پتوں پر ریشم کے کیڑے پال کر بہترین قدرتی ریشم حاصل کیا جاتا ہے، چھانگا مانگا کے جنگل میں ایک خوبصورت تفریحی پارک سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہے، یہ جنگل مختلف قسم کے جانوروں کی پناہ گاہ کا کام بھی دیتا ہے، چھانگا مانگا کی لکڑی پورے ملک میں مشہور ہے، ضلع میں مشہور درخت کیکر، شیشم، شہتوت، سفیدہ،بیری، جامن، آم، شیریں، نیم،دھریک، پیپل اور برگد وغیرہ کثرت سے ہیں جبکہ جنڈ، کریر اور ون گاہے بگاہے نظر آتے ہیں ۔پلچھی دریائی علاقوں میں خودرو جھاڑی کے طور پر نمی والی اور ریتلی جگہ میں اگتی ہے جس کی شاخوں سے ٹوکریاں وغیرہ بنتی ہیں، اس کے علاوہ پانی والے علاقوں میں ڈب بھی اگتی ہے جو نماز کے لئے صفیں بنانے کے کام آتی ہے ۔ 

جانور

 تحصیل چونیاں کے بنجر نشیبی علاقوں میں کبھی کبھار قدیم زندگی کے آثار بھی ملتے ہیں ، جنگلی جانوروں میں بھیڑیا اور گیدڑ زیادہ اہم ہیں، کہیں کہیں لومڑی بھی پائی جاتی ہے ، بھیڑیا اور لومڑی زیادہ تر ماجھے کے علاقے میں دیکھے گئے ہیں ، گیدڑ پورے ضلع میں مل جاتا ہے اور فصلوں کی خوب خبر لیتا ہے، خار پشت بھی فصلوں کی اہم دشمن ہے اور بہت بڑی تعداد میں موجود ہے ، خنزیر اور جنگلی بلیوں کے علاوہ نیل گائے، پاڑا ہرن اور جنگلی خرگوش وغیرہ بھی مل جاتے ہیں ۔

شہری اور دیہی زندگی

 شہروں میں تعلیم یافتہ افراد عموماً نیم مغربی لباس پہنے ہونے افراد دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ یہ لوگ گھروں میں سادہ لباس پہنتے ہیں، شلوار قمیص پہننے کا عام رواج ہے، شادی بیاہ کی تقریبات میں لوگ رنگ برنگے لباس پہننا پسند کرتے ہیں، عورتوں کے لباس اکثر رنگیں ہوتے ہیں اور وہ میچنگ سوٹ شوق سے زیب تن کرتی ہیں۔

مسجد نور قصور
نماز جمعہ جامع مسجد نور قصور

 یہاں کی مشہور اور بڑی ذاتیں آرائیں ، جٹ ، راجپوت ، میو ، ڈوگر ، انصاری ، شیخ اور پٹھان ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں راجپوت 32 فیصد ، آرائیں 30 فیصد ، جٹ 10 فیصد اور 4 فیصد ڈوگر آباد ہیں۔ انصاری، شیخ اور پٹھان تناسب کے لحاظ سے بہت کم ہیں اور زیادہ تر شہری آبادی کا حصہ ہیں۔ زیادہ مشہور ذاتوں کے لوگ اکثر دیہات میں رہتے ہیں اور کھیتی باڑی کے پیشہ سے منسلک ہیں، ان قوموں کے ساتھ ساتھ مختلف پیشوں سے متعلق لوگ بھی یہاں آکر آباد ہو گئے تھے، یہ لوگ زمیندار طبقہ کی خدمت کرتے اور معاوضہ فصل وغیرہ کی صورت میں لیتے تھے ، ان پیشہ ور لوگوں میں لوہار، ترکھان، کمہار، موچی اور جولاہے وغیرہ زیادہ اہم ہیں، ایسے لوگ زیادہ تر دیہاتوں میں ملتے ہیں۔

Village Dona Kasur
Village Dona Tehsil Kasur

دونا گاوں قصور
دونا گاوں تحصیل و ضلع قصور

 دیہی ضلع ہونے کی وجہ سے 78 فیصد آبادی دیہات میں رہائش پذیر ہے جن کی اکثریت زراعت پیشہ ہے، اب دیہات سے بڑے قصبوں اور شہروں کی طرف نقل مکانی کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے، زرعی علاقہ ہونے کی وجہ سے لوگ مویشی بھی شوق اور کثرت سے پالتے ہیں جن سے گوشت اور دودھ کی ضرورت پوری کی جاتی ہے، یہاں سے دودھ جمع کر کے لاہور کی اکثریتی آبادی کے لئے بھی سپلائی کیا جاتا ہے۔

پانی کی سہولیات

یہ ضلع 641 دیہات اور قصبات پر مشتمل ہے، زرخیز زمینیں اور عمدہ نہری نظام ہونے کی وجہ سے زیادہ تر اراضی نہری پانی سے سیراب کی جاتی ہے، ہٹھاڑ میں آبپاشی کے لئے ٹیوب ویل بھی ایک ذریعہ ہیں مگر ماجھے کا زمینی پانی اکثر کڑوا ہونے کی وجہ سے بارش یا نہریں ہی آبپاشی کے لئے کار آمد ہیں۔

BRB Canal Kasur
بی آر بی نہر بمقام ٹھوکر قصور

ان علاقوں میں پینے کے لئے زیادہ تر پانی حکومت کی واٹر سپلائی سکیم کے تحت زیادہ گہرائی سے نکال کر ایسے علاقوں میں سپلائی کیا جاتا ہے جو باقاعدہ لیبارٹری میں ٹیسٹ شدہ ہوتا ہے جس کا انتظام کونسلز کے تعاون سے کیا جاتا ہے۔ ہٹھاڑ کےعلاقےمیں کم گہرائی سے ہی پانی نکل آتاہے، لیکن قصور میں چمڑے کے بہت سے کارخانوں سے نکلنے والے مضر صحت گندے پانی نے قریبی علاقے کے قدرتی پانی کو بھی متاثر کیا ہے اس لئے حکومت نے ہٹھاڑ میں بھی واٹر سپلائی سکیم کو پھیلا کر تمام علاقے کو پینے کا صحیح پانی مہیا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ بڑی بڑی فصلوں میں گندم، چاول، کماد، کپاس، مکئی اور چارہ وغیرہ شامل ہیں، سبزیاں بھی بہت زیادہ کاشت ہوتی ہیں جو یہاں کی ضرورت پوری کرنے کے علاوہ لاہور کو بھی بڑی مقدارمیں بھیجی جاتی ہیں۔ 

  شرح خواندگی

1998 ءکی مردم شماری میں یہاں کی شرح خواندگی 32.1  فیصد تھی مگر اب کافی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، مردوں کی نسبت عورتوں میں تعلیمی پسماندگی زیادہ نظر آتی ہے اور صرف 29 فیصد عورتیں لکھنے پڑھنے کے قابل ہیں، تعلیمی سہولیات کا فقدان بھی تعلیمی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، سرکاری تعلیمی اداروں میں حکومت کافی تعلیمی سہولتیں فراہم کر رہی ہے جبکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی تیزی سے پھیل رہے ہیں جن میں بھاری فیسوں کے عوض چند سہولیات مہیا کردی جاتی ہیں جو اونٹ کے مونہہ میں زیرہ کے مترادف ہے ۔ 

گنڈا سنگھ بارڈر قصور
گنڈا سنگھ بارڈر قصور

صحت

آبادی کے تناسب سے صحت کی بنیادی سہولتیں بھی بہت کم ہیں، تین ہسپتال، 25 ڈسپنسریاں، 12 دیہی مراکز صحت، 8 زچہ بچہ ہیلتھ سنٹر اور ایک ٹی بی سنٹر پورے ضلع کی ضروریات کے لئے موجود ہے۔

Previous Post Next Post